BBCUrdu.com | صفحۂ اول

جی ایم آئ کیا ہے؟

power point URDU

اردو

Thursday, July 22, 2010





طرز عمل
(Faraz Tanvir, Lahore)
طرز عمل یعنی کام کرنے کا طریقہ ہر انسان کا طرز عمل بہت سے معاملات میں ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہوتا ہے مقدر اپنی جگہ لیکن انسان کی زندگی کا دارومدار کافی حد تک انسان کے اپنے طرز عمل کا مرہون منت بھی ہوتا ہےہر انسان کی زندگی اس کے طرز عمل سے مطابقت رکھتی ہے جیسا جس انسان کا طرز عمل ہوتا ہے وہ انسان ویسی ہی زندگی گزارتا ہے جو لوگ زندگی کے تمام معاملات میں توازن و تناسب کو مدّنظر رکھتے ہیں ان کی زندگی بھی دیگر افراد کے مقابلے میں مناسب و متوازن رہتی ہے کہتے ہیں کہ توازن ہی میں زندگی کا حسن ہے

بہر حال بات ہو رہی ہے طرز عمل کی کون انسان ہے جو یہ نہیں چاہتا کہ اس کی زندگی بہتر سے بہترین کی سمت گامزن نہ رہے دنیا کا تقریباً ہر انسان اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر تر بنانے کی ہر ممکن کوشش بھی کرتا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ سب کی زندگی ایک دوسرے کے مقابلے میں کافی حد تک مختلف ہوتی ہے جب کے اپنی طرف سے تو ہر کوئی اپنے طرز عمل کو بہتر سے بہتر بنانے کی سعی کرتا ہے کہ وہ بھی مناسب و متوازن، خوش و خرّم اور حسین و دلکش زندگی گزار سکے

پھر کیا وجہ ہے کہ اکثر افراد اکثر ہی مقدّر کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ:
‘یہ ضروری تو نہیں آگ سے جل جائے بشر
بعض لوگوں کو مقدر بھی جلا دیتے ہیں‘

جہاں تک مقدر کے ہاتھوں زندہ درگور ہوجانے کا تعلق ہے تو زندگی ہو یا مقدر ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر آزماتا ضرور ہے جو لوگ مقدر کی آزمائش پر پورا اترتے ہیں وہ کامیاب رہتے ہیں اور جن کے قدم راستے کی دشواریوں کا مقابلہ کرنے کی ہمّت نہ پاتے ہوئے ڈگمگا جاتے ہیں پھر وہ تاحیات مقدر اور حالات کا شکوہ کرتے زندگی کے دن اداسی و مایوسی کی حالت میں جیسے تیسے بس گزار ہی لیتے ہیں
مانا کہ مقدر کی آگ حیات انسانی کو جلا دینے کی تاثیر رکھتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جس طرح تصویر کے دو رخ، شخصیات کے دو پہلو ہوتے ہیں اسی طرح مقدر کی آگ بھی اپنے اندر دوہری تاثیر لئے ہوتی ہے دشت حیات کے سفر میں بہت سے ایسے راہی بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ جنہوں نے مقدر کی آگ میں جل کر خود کو کندن بنا لیا ہے اور اس آگ سے محض جلن کی حدّت نہیں بلکہ روشنی اور زندگی کی حرارت بھی حاصل کرتے ہوئے خود اپنی تقدیر کا رخ موڑ دیا ہے

بات ساری طرز عمل کی ہے جو مقدر کی ہر آزمائش کو ہمت اور صبرو تحمل سے برداشت کر لیتی ہیں اور اس کیفیت سے نکلنے کے لئے بہترین طرز عمل کے تسلسل سے اپنی کیفیات اور اپنے حالات پر قابو پالیتے ہیں پھر انہیں مقدر کی آگ بھی نہیں جلا سکتی

ارشاد باری ہے کہ وہ اپنے بندوں پر ان کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ہر انسان کو دنیا میں سکھ بھی ملتے ہیں اور دکھ بھی اور ہر دو معاملات میں بہترین حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ہی انسان اپنی زندگی کا سفر بخیروعافیت طے کرتا ہے اور اپنے خالق کے سامنے سرخرو ہوتا ہے بشرطیکہ اپنے تمام معاملات میں صرف اپنے مالک کی رضا اور اپنے طرز عمل کو مدنظر رکھا جائے

جبکہ انسان کو ہر زمانے میں اور ہر قسم کے حالات و واقعات کے مطابق طرز عمل اختیار کرنے کی حکمت و ہدایت کی روشنی بھی دکھا دی گئی ہے اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ دو راستوں میں سے کونسا راستہ اختیار کرتا ہے

یہ کائنات مادہ سے تشکیل دی گئی ہے اور مادہ مختلف عناصر کا مجموعہ ہے جس کا ہر عنصر اپنے اندر بیک وقت دو یا دو سے زیادہ متضاد کیفیات و تاثیر لئے ہوئے ہے اور یہ بذات خود انسان کا کام ہے کہ وہ کس طرح اپنی عقل، اپنے علم، اپنے ہنر، اپنی تدبیر اور اپنے حسن عمل کے پیش نظر ان عناصر کی خصوصیات کو بروئے کار لاتا ہے ان سے فیض اٹھاتا ہے یا نقصان پاتا ہے یہ سب انسان کی اپنی ثواب دید پر منحصر ہے اور جسکا انحصار انسان کی اپنی حکمت عملی پر ہے

یہ بھی درست ہے کہ ہر انسان اپنی زندگی اپنی مرضی و منشا سے گزارنا پسند کرتا ہے اور وہ اپنی زندگی کے معاملات میں ذاتی طور پر خود مختار اور بااختیار بھی ہے بیشتر انسانوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جس کام سے انہیں روکنے کی کوشش کی جائے وہ اپنے دل کو اسی کام کی سمت مائل پاتے ہیں اگرچہ یہ طرز عمل ان کے لئے با‏عث آزار ہی کیوں نہ ہو اور جس کام کی انسان کو ترغیب دی جائے تو وہ اس سے گریز کرتا ہے بھلے ہی وہ اس کے فائدے کی بات ہو

مقصد یہ ہے کہ جب کوئی درد دل رکھنے والا کوئی انسان دوسروں کے بھلے کی بات کرتے ہوئے دوسروں کی بہتری کے لئے انہیں اچھا کام کرنے کی ترغیب دلانے کے باوجود دوسروں کا متضاد رویہّ ایسے انسان کو دکھی کر دیتا ہے

مانا کہ بہت سے افراد کی سوچ ، رویوں، مزاج اور طرز عمل کو تبدیل کرنا وقت طلب اور مشکل کام ہے لیکن چونکہ جہاں مشکل ہے وہاں مشکل کا حل بھی موجود ہے تو میری دانست میں اسکا حل یہ ہے کہ دوسروں کو بدلنے کی کوشش میں اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے آپ ایک چھوٹا سا یہ کام کریں کہ اپنے طرز عمل میں تبدیلی لے آئیں ممکن ہے کہ آپ کے مثبت حسن عمل اور اس عمل کے نتیجے میں حاصل شدہ نتائج کی تاثیر دوسروں کو خودبخود اپنا طرز عمل آپ کے بغیر کچھ کہے مثبت سمت موڑنے پر آمادہ کر دے
جیسا کہ کہنے والے کہہ گئے ہیں

'خود کو بدلنا اتنا مشکل نہیں جتنا دوسروں کو بدلنا مشکل ہے بہت سے افراد کو بدلنے کی کوشش میں وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ آپ اپنے طرز عمل کو تبدیل کر لیں بہت ممکن ہے کہ آپ کے حسن عمل کی تاثیر دوسروں کی سوچ، مزاج ، رویّوں اور طرز عمل میں مثبت تبدیلی لے آئ

خطبہ و تقریر اور الفاظ و انداز
(Faraz Tanvir, Lahore)


کہتے ہیں کہ کوئی بھی تخلیق دیکھنے اور پرکھنے والوں کے لئے اپنے خالق کا عکس پیش کرتی ہے اور کوئی بھی تحریر و تصنیف مصنف یا لکھنے والے کے جذبات اور شخصیت کی ترجمانی کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر تخلیق کار کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی تخلیق کو مناسب الفاظ اور موزوں طریقہ کار سے شاہکار کرے کہ جو دیکھنے والوں کے لئے قابل ستائش بھی ہو اور اثر پذیر بھی جس کے لئے وہ تخلیق و تحریر کے مطلوبہ تکنیکی و تخلیقی معیارات کو مدنظر رکھتا ہے اور یہ بہترین تخلیق کے لئے ضروری بھی ہے
اسی طرح خطاب و تقریر میں بھی خطیب و مقرر کا بیان خطیب و مقرر کے جذبات و شخصیت کی ترجمانی کرتا ہے

کسی بھی تقریر یا خطبہ میں الفاظ کو اساسی حیثیت حاصل ہے اور یہ الفاظ ہی ہیں جو مخاطب و سامع پر مقرر و خطیب کی تقریر و خطبے کا مقصد و مفہوم واضح کرنے میں معاونت کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی مقرر و خطیب کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دوران خطاب الفاط کے ساتھ ساتھ انداز کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے بیان جاری رکھیں

الفاظ و انداز کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے بلکہ دیکھا جائے تو بیشتر مواقع پر الفاظ سے زیادہ انداز تقریر و خطبہ پر اثر انداز ہوتا ہے جہاں الفاظ مفہوم واضح کرنے سے قاصر رہتے ہیں وہاں مؤثر انداز تخاطب مخاطب و سامع پر مقصد و مفہوم کی وضاحت کے عمل کو سہل کرتا ہے بلکہ خطبہ و تقریر کو مزید پر اثر بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے

مختصر یہ کہ دوران تخاطب مناسب الفاظ کے ساتھ ساتھ تناسب الفاظ کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے الفاظ و انداز میں توازن ہونا چاہیے الفاظ و انداز کا یہ توازن ہی خطبہ و تقریر کو مخاطب و سامع کے لیے زیادہ دلپذیر و مؤثر بناتا ہے

اچھے خیالات جن سے شائد ہم کچھ اچھا کر سکیں
(M. Furqan Khan, Karachi)


دنیا میں بہت سے اچھے طریقے ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے ہم نا صرف اپنی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلیاں لا سکتے ہیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی کچھ اچھا دے سکتے ہیں ان میں سے مندرجہ ذیل پیش خدمت ہیں۔

١۔ اپنے دماغ کو خوش رکھنے کی کوشش کیجیے اور سیکھیے کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے کس طرح لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔

٢۔ اپنے حالات سے بہترین چیز حاصل کرنے کی کوشش کیجیے، یقین رکھیے سب کے پاس ہر چیز نہیں ہوتی۔ سیکھیے یہ فن کہ کس طرح مسکراہٹ اور ہنسی دور بھگادے آنسوں اور ناامیدیوں کو۔

٣۔ اپنی زات کو زیادہ سنجیدہ مت بنائیں۔ اور نہ سوچیے کہ اپنے آپ کو اس آنے والی گھڑی سے کیسے بچائے رکھیں جس کا شکار آپ نے اگر ہونا ہے تو ہونا ہے۔

٤۔ آپ ہر کسی کو خوش اور مطمئن نہیں رکھ سکتے لہذا تنقید پر پریشان ہونا چھوڑ دیجیے بلکہ تنقید سے کچھ سیکھنے کی کوشش کیجیے۔

٥۔ اپنے پڑوسیوں اور دوستوں کو اجازت مت دیجیے کہ وہ آپ کے لیے معیار بنانے شروع کردیں یہ کام آپ خود بہتر کر سکتے ہیں اپنے لیے لہذا خود کوشش کریں۔

٦۔ وہ چیزیں کریں جن سے آپ کو خوشی ہوتی ہے نا کہ ناخوشی۔

٧- کیونکہ نفرت زہرآلود کردیتی ہے روح کو، لہذا نفرت کو اپنے اندر نا جگہ دیں اور ان لوگوں سے بچیں جو آپ کو ناخوش کرتے ہوں۔ جتنا آپ ان سے دور رہیں گے آپ نفرت کے جزبہ سے بھی دور رہیں گے۔

٨۔ بہت سے مشغلوں میں مصروف رہیں۔ اگر آپ زیادہ سفر نہیں کر سکتے تو کم از کم نئی جگہوں کے متعلق پڑھنے کی کوشش کر دیکھیے۔

٩۔ اپنے وقت کو دکھ و تکلیف دینے والی غلطیوں میں مت الجھائے رکھیں اچھا کے لیے کوشش کر دیکھیے کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

١٠۔ کچھ کیجیے ان لوگوں کے لیے جو آپ کی نسبت کم خوش نصیب ہوں۔

١١۔ مصروف رہنے کی کوشش کیجیے۔ کہتے ہیں ایک مصروف آدمی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ناخوش رہے۔

اپنے پیاروں کو اپنے سے قریب رکھیں کیونکہ ان کی جدائی کے بعد ہو سکتا ہے کہ ایک دن آپ کی آنکھ کھلے اور آپ کو احساس ہو کہ آپ نے کوئی قیمتی ہیرا کھو دیا ہے اس وقت جب آپ بہت مصروف تھے بے کار پتھر چنتے ہوئے۔

آپ سب کا مخلص، نیک دعائوں کا طالب

نصیب
(Faraz Tanvir, Lahore)



جیسا عمل ویسا نصیب کون چاہے گا کہ اسکا نصیب بگڑے سو اپنے عمل سنوار لیں تاکہ آپ کا نصیب سنور جائے اور کم نصیبی کا گلہ چھوڑ دیں ویسے بھی انسان ہمیشہ اپنی نیت اور اپنے اعمال ہی کا ثمر پاتا ہے اپنے دلوں میں خلوص نیت پیدا کریں نیک اعمال کی روش اختیار کریں نصیب سنور جائے گا اور تمام گلے شکوے دور ہو جائیں گے


کوشش٬ محنت٬ محبت
(Faraz Tanvir, Lahore)


وعدہ نہ کرو وعدے ٹوٹ جاتے ہیں دعویٰ نہ کریں دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ہاں اگر کچھ کرنا چاپتے ہو تو محنت اور محبت کے ساتھ کوشش کئے جاؤ کوشش کامیاب ہوتی ہے محنت رائیگاں نہیں جاتی اور محبت نہ تھکتی ہے نہ ہارتی ہے جیت جاتی ہے

مگر پہلی باری آپ کی ہے
(Noor Ul Hira Ziaee, Karachi)


زندگی کے کتنے ہی کام اس لیےنہیں ہوتے کہ ہم انہیں شروع نہیں کرتے شروع اسلیے نہیں کرتے کہ مکمل ہونے کا امکان نظر نہیں آتا- ہم پہلے ہی سے ہمت ہار جاتے ہیں ہم بھول جاتے ہیں کہ مکمل کرنے والی ذات الله کی ہے! اس نے اپنے بندوں کو اتنی ہی تکیلف دی ہے جتنی وہ اٹھا سکیں- شرط یہ ہے کہ آپ اپنے حصے کا کام پورا کریں! جہاں 100 کرسکتے ہیں 90 نہ کریں اپنے آپ سے ایمان دار رہیں پھر باقی کام الله کے ذمے ہے مگر - پہلی باری آپ کی ہے- کوشش ہماری طرف سے ہے اور مکمل کرنا الله کی طرف سے

پھولوں کی سیج
(Irfan Ali, Rawalpindi)


کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ “زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے“ اس کہاوت کی سچائی تب سمجھ آتی ہے جب انسان عملی طور پہ تجربات اور آزمائشی دور سے گزرتا ہے۔ دنیا میں پہلا قدم رکھتے ہی اسے تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ “انسان دنیا میں سب پہلے رونا سیکھتا ہے“ بلکہ اس کا دنیا میں پہلا قدم ہی روتے سے شروع ہوتا ہے ۔ پھر جب تھوڑا سا بڑا ہوتا ہے تو اسے تھوڑی بڑی آزمائشوں سے گزرنا ہوتا ہے۔ اسکول کا ہر سال اس کی آزمائش پہ ختم ہوتا ہے۔ جب جوان ہوتا ہے تو کئی طرح کی آزمائشیں اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑی ہوتی ہیں کبھی بے روزگاری کا غم تو کبھی غم یار کبھی شیطان کے بہلاوے تو کبھی دوستوں کی بے وفائیاں۔ کبھی حادثات تو کبھی کیا۔ جب شادی کے بندھن میں بندھتا ہے تو پھر اور آزمائش ہوتی ہے کبھی بیوی کی بے وفائی تو کبھی بچوں کی طرف سے غم پھر جب بوڑھا ہوتا ہے تو بڑھاپے کا غم اور پریشانی تنہائی کا احساس ماضی کی یاد اور موت کا احساس اسے گھائل کر دیتا ہے۔ پھر موت اور اس کے بعد بڑی آزمائش۔۔۔۔۔۔ ہر انسان کی کہانی کا انجام یہی ہے ہاں کچھ لوگوں کی کہانی کا اختتام اچھا ہوتا ہے اور کچھ کا برا ہوتا ہے ۔ آج ہم زندہ ہین سانس لے رہے ہیں اللہ کے دیا سب کچھ ہے ہمارے پاس ۔ سردیوں میں گرم کپڑے اور سونے کے لیے گرم کمبل گرمیوں میں اور بہت کچھ اچھے قسم کے کھانے پھل فروٹ بے انتہا نعمتیں کیا کچھ نہیں ہوتا ہے ہمارے پاس لیکن ہم میں سے اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی کا مقصد کیا ہے اور یہ سب کچھ ہماری آزمائش کا حصہ ہے وہ لوگ بہت خوش قسمت ہیں جو اس بات کو سمجھ جاتے ہیں اور مقصد حیات کو پانے کی دھن میں وہ سرکردہ رہتے ہیں وہ ان نعمتوں میں خود کو گم نہیں کرتے اور نہ ہی خود کو بھولتے ہیں بلکہ ان کی تلاش کچھ اور ہوتی ہے اور اسی تلاش میں وہ بالآخر اپنی سعی میں کامیاب ہوجاتے ہیں

دل کو نہ توڑیئے یہ خدا کا مقام ہے
(Faraz Tanvir, Lahore)


دل بظاہر نظام حیات کو بحال رکھنے کا اہم ترین جز اور ہیئیت کے اعتبار سے گوشت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے جو جسم میں خون کے دوران کو رواں رکھنے کا ذریعہ ہے اگر انسان کے سینے میں دل نہ ہو تو جسم میں جان نہ ہو انسانی زندگی قائم نہ رہ سکے

انسانی جسم و جاں کے لئے دل کی اہمیت سے کون واقف نہیں یہ دل ہی ہے جس کی دھڑکن انسانی زندگی کے لئے سب سے زیادہ اہم ہے دل کی دھڑکن کے رکتے ہی چلتی سانسیں رک جایا کرتی ہیں کوئی دیو ہیکل بھاری بھرکم وجود والا انسان ہو یا دھان پان کمزور جان ہو پل میں جیتے جاگتے انسان سے خاک کا ڈھیر بن جایا کرتا ہے زندگی کی روانی ہو، بڑھاپا یا جوانی ہو دل کے بند ہوتے ہی بدن سے جان کا رشتہ آن کی آن میں منقطع ہو جایا کرتا ہے

دل کی محض یہی مختصر حقیقت نہیں ہے کہ یہ انسانی جسم میں حیاتیاتی افعال کا اہم ترین جز ہے اور جسم کا ایک حصہ ہے بلکہ روحانی اعتبار سے بھی دل کی اہمیت مسلم ہے دل انسان کے جذبات کا مخزن ہے دل ہی ہے کہ جس میں خیال یار کی تصویر بستی ہے جس تصویر کی تلاش و جستجو میں انسانی آنکھ بیقراری کے عالم میں ہمہ تن محو سفر رہتی ہے اور جب انسان اپنے دل میں نہاں رخ محبوب کی جلوہ نمایاں ظاہر میں دیکھتا ہے تو یہ دل ہی ہے جو گواہی دیتا ہے کہ ہاں یہی تو وہ صورت ہے جو کہیں دل کہ نہاں خانے میں عرصہ دراز سے مقیم ہے اور یہ محبوب کوئی عام محبوب نہیں بلکہ محبوب حقیقی ہے رب کائنات ہے جس کا عکس کائنات کے ذرے ذرے سے عیاں ہے یہی وجہ ہے کہ انسان جب کسی چیز کو دیکھ کر اسکے لئے دل میں کشش محسوس کرتا ہے تو یہ وہی حسن حقیقی کی جھلک ہے جو ہر شے میں نہاں ہے

اسی حسن کی جھلک پا کر انسان کائنات سے محبت کرتا ہے انسان کائنات کے نظاروں سے محبت کرتا ہے انسان مخلوق کائنات سے محبت کرتا ہے اور انسان انسان سے محبت کرتا ہے یہی محبت انسان کو منزل بہ منزل عشق آشنا کرتی ہے یہ عشق ہی انسان کی مجاز سے اس حقیقت کی سمت رہنمائی کرتا ہے جو انسان کو اپنے آپ سے اور اپنے رب سے ملاتا ہے

کہنے کو تو انسانی دل گوشت کا ایک لوتھڑا ہے لیکن دنیا میں دل جیسا گہرا اور وسیع مکان کوئی اور نہیں اسی لئے دل کی وسعت و گہرائی کو صحرا و سمندر سے بھی تشبیہ دی گئی ہے بلکہ جو دل عشق کا دم بھرتا ہے اس دل کی وسعت و گہرائی کے آگے صحرا و سمندر کی وسعت و گہرائی بھی شرماتی ہے انسانی جسم میں محض دل ہی وہ واحد مقام ہے جہاں عشق کا جہان آباد ہوتا ہے

کہنے کو تو دل ہر زندہ انسان کے سینے میں موجود ہے لیکن زندہ وجود میں زندہ دلی نہ ہو تو دل مردہ ہے اور ایسی زندگی زندگی نہیں شرمندگی ہے جسم میں دل کا ہونا بڑی بات نہیں بلکہ دل والے ہونا بڑی بات ہے اور دل والے وہی ہوتے ہیں جن کے دل دوسروں کے لئے جذبہ محبت سے سرشار ہوں کہ رب بھی اسی دل میں قیام کرتا ہے جس دل میں خلق خدا کے لئے جذبہ محبت مؤجزن دیکھتا ہے مخلوق خدا سے محبت ہی خدا سے محبت کرنا ہے اسی لئے دل کو خدا کا مسکن کہا گیا ہے کہ رب اسی دل میں قیام پسند فرماتا ہے جہاں جذبہ عشق و محبت پاتا ہے

جذبہ محبت انسان کو خدا سے قریب تر کرتا ہے اسی لئے تو کہتے ہیں کہ دل خدا کا مسکن ہے خدا انسان کے دل میں قیام کرتا ہے اور یہ کون پسند کرے گا کہ کوئی اس کے مکان میں دراڑیں ڈالے اس کا مکان توڑے لیکن واہ رے انسان تیری دلیری بڑی آسانی سے آئے دن بغیر کسی وجہ کے کبھی اس کا کبھی اس کا کبھی کسی کا اور کوئی نہ ملا تو کبھی اپنے ہی ہاتھوں اپنا دل توڑ بیٹھے اور یہ بھی نہ جانا کہ ہم جانے یا انجانے کتنا بڑا نقصان کر بیٹھے ہیں اس گھر کی دیواریں ہلا دیں ہیں جہاں ہمارا خدا بڑی محبت سے براجمان ہے
اللہ کے بندوں اپنی زبان اپنے ہاتھ اور اپنے رویوں میں محتاط ہو جاؤ اور کسی کا دل نہ توڑو ہم نہیں جانتے کہ اللہ کے نزدیک کس دل کا کیا مقام ہے اور کس دل میں اللہ کا قیام ہے کہیں انجانے میں ہم بہت بڑے جرم کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں، کہیں ہم سے وہ گناہ سرزد نہ ہو جائے کہ جس کا ازالہ یا معافی ممکن نہ ہو

رب کائنات حقوق اللہ سے غفلت کی بابت توبہ قبول کر بھی لے تو حقوق العباد سے غفلت کی بابت اس وقت تک توبہ قابل قبول نہ ہو گی جب تک کہ خود وہ شخص معاف نہ کر دے جس کا ناحق دل دکھایا گیا ہے کہ دل دکھا دینا تو نہایت سہل ہے لیکن دکھے دل سے نکلی آہ کے نتیجے میں ہونے والے تباہی کا رخ موڑنا سہل نہیں ہوتا اس سے پہلے کے کسی ٹوٹے دل کی آہ عرش کو ہلا دے اپنے آپ پر وہ اختیار حاصل کر لیں جو آپ کو ناحق کسی کا دل دکھانے کی عادت سے روک لے

آگے آپ خود بہتر سوچ سکتے ہیں کہ کسی کا دل دکھانا کیسا جرم ہے جب کے آپ بخوبی جانتے ہیں کہ دل خدا کا مسکن ہے اور جو خدا کے مسکن کو خدا کے گھر کو توڑے گا تو کیا رب یہ پسند فرمائے گا اسی لئے کہنے والے کہہ گئے ہیں اور کہتے بھی رہتے ہیں
'دل کو نہ توڑیئے یہ خدا کا مقام ہے'

No comments:

Post a Comment

RULEOFGOD